جنرل اسد درّانی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے، 91-1990
ادتیہ سہنا دہلی کے مضافات میں مقیم ایک صحافی اور مصنف ہیں
ہم نے سچائی کے اتنے قریب رہنے کی کوشش کی ہے جتنا کہ ہم اسے مانتے ہیں چاہے اس میں سے کچھ کو افسانہ ہی کیوں نہ سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر زیادہ تر کہانیوں کے دو سے زیادہ رخ ہوتے ہیں۔ سچائی ایک رنگین عدسہ ہوتی ہے جس میں ہر کوئی مختلف رنگ دیکھتا ہے۔
(اے ایس دولت)
ہم میں سے کچھ کے ذہنوں میں دانائی کا قلزم موجزن ہے، اور وہ اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے انتہائی بے چین ہیں۔ اس کا ایک مفید طریقہ مخالف دھڑوں کے اہم کھلاڑیوں کے درمیان تبادلہ خیال ہے، بشرطیکہ ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرنے اور ایک مختلف بیانیہ، حتیٰ کہ متبادل حقائق، سامنے رکھنے کے لیے تیار ہوں۔
(اسد درّانی)
جیسا کہ دو جاسوسوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کاوش کے نتیجے میں رونما ہونے والے کھلے خطرات کے علاوہ اس کے مضمرات سے بھی آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میز پر بیٹھ کرپرسکون ماحول میں وہ جو باتیں کرتے ہیں، اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ ان کی گفتگو پاک بھارت تعلقات کی اصل حقیقت کا احاطہ کرتی ہے۔
(ادتیہ سہنا)
افق کی سمت اشارہ کرتے ہوئے جہاں آسمان اور سمندر باہم مل رہے ہیں، وہ کہتا ہے، “یہ محض ایک بصری دھوکا ہے کیوں کہ درحقیقت وہ نہیں ملتے ہیں۔ لیکن کیا یہ منظر خوب صورت نہیں؟ وہ ملاپ جو دراصل نہیں ہوتا۔”
(سعادت حسن منٹو)
2016 میں کسی وقت مکالموں کا ایک سلسلہ چلا تھا جس نے اے ایس دولت اور اسد درّانی کے درمیان ملاقات کی بنیادرکھ کردی، چاہے اسے ایک واہمہ ہی کیوں نہ کہہ لیں۔ ایک را کے سابق چیف تھے، جو انڈیا کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے، دوسرے اس کی مخالف پاکستانی ایجنسی، آئی ایس آئی کے چیف۔ چوں کہ دونوں کی اپنے آبائی ممالک میں ملاقات نہیں ہوسکتی تھی جب کہ صحافی ادتیہ سہنا ان ملاقاتوں کی میزبانی کررہے ہوں، اس لیے یہ ملاقاتیں دیگر شہروں، جیسا کہ استنبول، بنکاک اور کھٹمنڈو میں ہوئیں۔ میز پر رکھے گئے موضوعات وہ تھے جو طویل عرصے سے جنوبی ایشیا کو آسیب کی طرح گھیرے ہوئے ہیں، سلگتے ہوئے مسائل جن کی وجہ سے لگاتار جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ یہ ہر لحاظ سے بر صغیر کے سیاسی قلزم میں گہری چھلانگ تھی، جیسا کہ دونوں جاسوں کی ماہرانہ نظریں اسے دیکھتی ہیں۔
موضوعات میں کشمیر، ہاتھ سے نکل جانے والے مواقع، حافظ سعید اور ممبئی حملے، کلبھوشن یادیو، سرجیکل اسٹرئیکس، اسامہ بن لادن کے لیے ڈیل، امریکہ اور روس پاک بھارت تعلقات میں کہاں کھڑے ہیں، اور کس طرح دھشت گردی دونوں ممالک کے درمیان گفتگو کی کوششوں کو ناکام بنا دیتی ہے۔
جب سب سے پہلے اس منصوبے کو زیر بحث لایا گیا تو جنرل درّانی نے ہنستے ہوئے کہا کہ اگر اسے فکشن کی طرز پر لکھا جائے تو بھی کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا۔ کشیدہ تعلقات کے دور میں مخالف سمتوں کے سابق جاسوس چیفس کے درمیان یہ ناممکن دکھائی دینے والا مکالمہ، جو اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے، ممکنہ طور پر کچھ جوابات فراہم کرسکتا ہے۔
About the Author
Lieutenant General Asad Ahmed Durrani is a retired 3-star rank general in the Pakistan Army and presently a commentator, speaker and author. Durrani previously served as the Director General of the ISI and former Director General of the Pakistan Army's Military Intelligence.
Please use your Email instead of your Username to login.
Caution: Deleting Your Account will permanently remove all associated data, which cannot be recovered.
Your cart's total less than the Gift Card value. If you checkout now, the remaining amount will elapse as Gift Cards are for one time use only. Continue Shopping to fully consume your Gift Card.
The Transaction was unsuccessfull. Please try again.