میرے افسانوں کی کلیات آپ کے ہاتھوں میں ہے، گویا کہ کام ختم ہو گیا ہے ۔مگر مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کام تمام نہیں بلکہ شروع ہی ہوا ہے۔ وقت کے سمندر کنارے ریت میں پاؤں جماۓ کھڑی ہوں، چاہتی ہوں کہ نشان دیر تک قائم رکھ سکوں ۔کار جہاں دراز ہے،سومیرا جی چاہتا ہے اپنی آخری سانس تک حرف کی محبت میں قید ، حیرت وحسرت حیات میں گم نئی سے نئی کہانی کی تلاش میں سرگرداں ، زندگی کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر چلتی چلی جاؤں اور لکھتی رہوں حکایات خونچکاں ،اور بات لمبی سے لمبی ہوتی چلی جاۓ ۔
تمام عمر کہانی کو ہمجولی بنا کر ساتھ رکھا مگر اپنے دل کا افسانہ نہ کہہ سکی سمجھتی رہی کہ میں کہانی کو لے کر چل رہی ہوں جبکہ کہانی خود مجھے لے کر چل رہی تھی ۔ میں تو بس اس جادوگرنی کا اک معمولی سامعمول تھی۔ ہر نفس کی ایک اپنی کتھا، ایک منفرد،انوکھی سی داستان ہوتی ہے، جس میں وہ جنم لیتا ،سانس کھینچتا ،اور پھر فنا کے پاتال میں اتر کر دفن ہو جاتا ہے۔
کہانی زندگی کا بھنور ہے، گرداب ہے، سمجھ میں نہ آنے والا ایک معمہ ہے ۔ایک کہانی کار کو اپنا ہنر دکھانا ہوتا ہے کہ وہ بھنور میں چراغ کیسے جلائے تا کہ سمندر میں روشنی ہو اور کشتی بان راستہ نہ بھولیں ۔خواہش یہی ہے کہ مجھے کہانی کے چرخے پر بیٹھی ،کہانیاں بننے ،کاتنے والی کے طور پر ہی جانا جاۓ ۔ یہ پہچان ہی میرا اعزاز ہے ۔تاوقتیکہ سمندر کی ایک منہ زورموج اٹھے اور میرے مضبوطی سے جمے قدموں کے نشان مٹا دے۔ باقی رہ جاۓ کہانی۔
About the Author
Neelum Ahmad Basheer is a fiction writer, novelist, poet, traveloguer, sketch writer, critic and researcher. She has a Master's degree in Psychology.
Please use your Email instead of your Username to login.
Caution: Deleting Your Account will permanently remove all associated data, which cannot be recovered.
Your cart's total less than the Gift Card value. If you checkout now, the remaining amount will elapse as Gift Cards are for one time use only. Continue Shopping to fully consume your Gift Card.
The Transaction was unsuccessfull. Please try again.